تفسير ابن كثير



سورۃ الأعراف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ[83] وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ[84]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو بچا لیا مگر اس کی بیوی، وہ پیچھے رہنے والوں میں سے تھی۔ [83] اور ہم نے ان پر بارش برسائی، ایک زبردست بارش۔ پس دیکھ مجرموں کا انجام کیسا ہوا؟ [84]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] سو ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا بجز ان کی بیوی کے کہ وه ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں ره گئے تھے [83] اور ہم نے ان پر خاص طرح کا مینہ برسایا پس دیکھو تو سہی ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا؟ [84]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تو ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا مگر ان کی بی بی (نہ بچی) کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں تھی [83] اور ہم نے ان پر (پتھروں کا) مینھ برسایا۔ سو دیکھ لو کہ گنہگاروں کا کیسا انجام ہوا [84]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 83، 84،

لوطی تباہ ہو گئے ٭٭

لوط علیہ السلام اور ان کا گھرانا اللہ کے ان عذابوں سے بچ گیا جو لوطیوں پر نازل ہوئے۔ بجز آپ کے گھرانے کے اور کوئی آپ پر ایمان نہ لایا۔ جیسے فرمان رب ہے «فَأَخْرَجْنَا مَن كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ» [51-الذاريات:35-36] ‏‏‏‏ یعنی ” وہاں جتنے مومن تھے، ہم نے سب کو نکال دیا لیکن بجز ایک گھر والوں کے، وہاں ہم نے کسی مسلمان کو پایا ہی نہیں۔ “

بلکہ خاندان لوط میں سے بھی خود لوط علیہ السلام کی بیوی ہلاک ہوئی کیونکہ یہ بد نصیب کافرہ ہی تھی بلکہ قوم کے کافروں کی طرف دار تھی۔ اگر کوئی مہمان آتا تو اشاروں سے قوم کو خبر پہنچا دیتی۔ اسی لیے لوط علیہ السلام سے کہہ دیا گیا تھا کہ اسے اپنے ساتھ نہ لے جانا بلکہ اسے خبر بھی نہ کرنا۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ ساتھ تو چلی لیکن جب قوم پر عذاب آیا تو اس کے دل میں ان کی محبت آ گئی اور رحم کی نگاہ سے انہیں دیکھنے لگی۔ وہیں اسی وقت وہی عذاب اس بد نصیب پر بھی آ گیا لیکن زیادہ قوی پہلا ہی ہے یعنی نہ اسے لوط علیہ السلام نے عذاب کی خبر کی، نہ اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ یہیں باقی رہ گئی اور پھر ہلاک ہو گئی۔

«غابرین» کے معنی بھی باقی رہ جانے والے ہیں۔ جن بزرگوں نے اس کے معنی ہلاک ہونے والے کے کئے ہیں، وہ بطور لزوم کے ہیں۔ کیونکہ جو باقی تھے، وہ ہلاک ہونے والے ہی تھے۔

لوط علیہ السلام اور ان کے مسلمان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شہر سے نکلتے ہی عذاب الٰہی ان پر بارش کی طرح برس پڑا۔ وہ بارش پتھروں اور ڈھیلوں کی تھی جو ہر ایک پر بالخصوص نشان زدہ اسی کے لئے آسمان سے اتر رہے تھے۔

گو اللہ کے عذاب کو بےانصاف لوگ دور سمجھ رہے ہوں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ خود دیکھ لیجئے کہ اللہ کی نافرمایوں اور رسول کی تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوطی فعل کرنے والے کو اونچی دیوار سے گرا دیا جائے، پھر اوپر سے پتھراؤ کر کے اسے مار ڈالنا چاہیئے۔ کیونکہ لوطیوں کو اللہ کی طرف سے یہی سزا دی گئی۔

اور علماء کرام کا فرمان ہے کہ اسے رجم کر دیا جائے خواہ وہ شادی شدہ ہو یا بےشادی شدہ ہو۔
2986

امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قول میں سے ایک یہی ہے۔ اس کی دلیل مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم لوطی فعل کرتے پاؤ، اسے اور اس کے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو۔ [سنن ابوداود:4462،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

علماء کی ایک جماعت کا قول ہے: یہ بھی مثل زناکاری کے ہے۔ شادی شدہ ہوں تو رجم ورنہ سو کوڑے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کا دوسرا قول بھی یہی ہے۔ عورتوں سے اس قسم کی حرکت کرنا بھی چھوٹی لواطت ہے اور بہ اجماع امت حرام ہے۔

بجز ایک شاذ قول کے اور بہت سی احادیث میں اس کی حرمت موجود ہے۔ اس کا پورا بیان سورۃ البقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔
2987



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.